اگر عام آدمی کا خون جزبات میں کھولتا ہے تو بھُٹو کا خون ایسا ہے جب جزبات بڑھکتے ہیں تو ان کا خون اُبلتا ہے۔ سرجانی ٹاؤن کراچی میں ایک چھوٹا سا جلسہ ہے جس سے میر مرتضیٰ بھٹو خطاب کرتے ہوئے بڑی جزباتی تقریر کرتا ہے۔ وہ بغیر لگی لپٹی کے کہتا ہے کہ واجد دُرانی تم ڈی آئی جی پولیس ہو سرکار کے نوکر ہو تم سیاست دان مت بنو۔ اگر تم میں کوئی رتی برابر بھی غیرت ہے تو آو میر مرتضیٰ سرجانی ٹاؤن میں کھڑا ہے اور مجھے آکر گرفتار کرو۔ ارے کوئی سی آئی ڈی والا اس جلسے میں ہے تو لکھے کہ جس میں غیرت ہے وہ آئے اور بھٹو کے اس بیٹے کو گرفتار کرے۔ واجد دُرانی تم روز مجھے دھمکیاں دیتے ہو کہ میں تمہیں بہت جلد گرفتار کرلوں گا اگر ہمت ہے تو مجھے گرفتار کرکے دیکھو۔
تم میرے کارکنوں کو گرفتار کرتے ہو تو یہ میری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اُن سے حوالات میں جاکرملوں ، اُنہیں کھانا دوں اور اُن کی رہائی کے لئیے کوششیں کروں۔
دُنیا کی تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں جو عوام کے حقوق کی آواز بُلند کرتا ہے اُسے دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ جو عوام کا خون چوستا ہے اُسے تخت پہ بٹھایا جاتا ہے اور بڑے بڑے القابات سے نواز جاتا ہے۔ میری پارٹی شہید ذوالفقار علی بھٹو کی وراثت ہے۔ واجد دُرانی تم ایک کرپٹ پولیس آفیسر ہو میر مرتضیٰ بھٹو نہ تمہاری پولیس سے ڈرتا ہے نہ تمہاری سی آئی ڈی سے ڈرتا ہے ۔ تم میں جان نہیں ہے تم میں غیرت ہی نہیں ہے کہ تم آؤ اور مجھے گرفتا رکرو۔
سرجانی ٹاؤن کا جلسہ ختم ہوجاتا ہے لوگ مرتضیٰ پہ دیوانوں کی طرح سے رقص کرتے دکھائے دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کی آنکھوں میں چمکتی ہوئی اُس محبت کو دیکھتا ہے تو اُس کی رُوح تک سرشار ہوجاتی ہے اور سوچتا ہے کہ یہی عوام ہیں جو اُسے کبھی مرنے نہیں دیں گے اور اگر وہ مربھی گیا تو پھر بھی ان کے سینے میں اپنے باپ کی طرح سے دھک دھک دھڑکتا رہے گا۔
جلسہ ختم ہوتا ہے تو اُسے فیروز کے دیس کی محبوبہ یاد آتی ہے جو گھر میں اکیلی اُس کی واپسی کی راہ تک رہی ہوتی ہے۔ وہ اپنے دوستوں سے کہتا ہے کہ بہت بھوک لگی ہے اور میں نے کھانا گھرجاکر کھانا ہے بہت دیر ہوچکی ہے اب واپس چلنا چاہیے!!
گاڑی سرجانی ٹاؤن سے چلتی ہے تو وہ گاڑی میں میوزک کو چلا دیتا ہے۔ عربی گانے کے طنبورو کے ساز بجنے لگتے ہیں اور وہ آنکھیں موند کے فیروز کا گانا سننے لگتا ہے اور بے ساختہ اُسکی زبان سے نکلتا ہے کہ میں اپنے محبوب کے لئے ہوں اور میرا محبوب میرے لئے ہے۔
وہ خوبصورت آنکھوں والی جو کہ دُنیا کی مشہور مغنی فیروز کے ملک سے تھی کھانے کی میز پر شمع جلائی اُس کاانتظار کررہی ہوتی ہے۔ عرب دُنیا میں فیروز کا وہ مقام ہے جو برصغیر پاک وہند میں لتا اور نورجہاں کا ہے۔ میر مرتضیٰ جب بھی گھر آتا تو اپنی محبت سے عربی میں گفتگو کرتا۔ اُس کی محبوبہ اُس کے لئیے فیروز کے نغمے گنگنایا کرتی تھی اور فیروز کا وہ شہرہ آفاق گانا ’’میں اپنے محبوب کے لئیے اور میرا محبوب صرف میر ے لئے ہے‘‘ ہمیشہ اُس کے لبوں پر رہتا۔ جس کے بول کچھ اس طرح سے ہیں
وہ میری صبح کی مانند ہے اور میں اپنے دروازے میں کھڑی اُسے دیکھ رہی ہوں
میرا یہ موسم بہار اُس کی آنکھوں میں اور زیادہ خوبصورت بن گیا ہے
میرے پریمی نے مجھے بُلایا ہے اور میں بناء پوچھے چلی آئی ہوں
میرے محبوب نے میری نیند میرا چین سب چُرالیا ہے
اور میں اُس کے راستے پر ہوں جوکہ خوبصورتی کا راستہ ہے
اوہ میری محبت کے سورج ۔۔۔میرے پیار۔۔۔۔
گاڑی منزل کی طرف چلتی رہتی ہے محرم کا چاند سیاہ لبادہ اوڑھے چمک رہا ہوتا ہے۔ اُسے اپنی ذہین بیٹی یاد آتی ہے جو رات کے کھانے پر اپنے باپ کا انتظارکررہی ہے۔ اُسے اپنا بیٹا بھی یاد آتا ہے جو سارا دن اُسے یاد کرتا رہتا ہے اور دل ہی دل میں اپنے ہی آپ سے سوال کرتا رہتا ہے کہ پاپاکب آئیں گے؟
اُس کی محبوبہ موم بتی جلائے اپنے محبوب کا انتظار کررہی ہوتی ہے ۔۔۔۔
کاش کوئی ہوتا جو اس پیار محبت کی داستان کو شاعری کی زبان میں حرف کرتا۔ جو اس عشق کو لیلیٰ مجنوں کے قصے سے تشبیہ دیتا۔ کوئی ہوتا جو دل بے تاب کی بے تابیاں لکھتا۔ جو اپنوں کے دئیے زخم لکھتا، جو اپنے قلم کو سیاہی کی بجائے اُن آنسوؤں سے لکھتا جو اس خاندان نے مرتضیٰ کی موت پر بہائے ہیں۔ مجھے تو کوئی مورخ بھی نہیں ملا کہ جس نے لکھا ہو کہ آج تو ہمالیہ بھی رو پڑا۔ بھٹو کے خون میں وہ باغی پن ہے جو کسی اور خون میں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ چٹان کی طرح سے کھڑے ہونا بھی جانتے ہیں اور ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑنا بھی جانتے ہیں۔ بہت سے لوگ آئے کہ بھٹو کو جھکا لیا جائے ، کسی طرح سے اسے سرنگوں کرلیا جائے۔ بھٹو کھڑے کھڑے اپنے گردن میں پھندا تو قبول کرلیتا ہے لیکن جھکتا نہیں ہے۔ اُس کے بعد دوسرے بھٹو کوڈرانے کی کوشش کی گئی، دھمکانے کی کوشش کی گئی لیکن جب اُس باغی پر کوئی بھی حربہ کارگر نہ ہوا تو سرجانی ٹاؤن سے واپسی پر ’’سرکار‘‘ اُس کا راستہ روکتی ہے۔ وہ جانتا ہے یہ وُہی سرکار ہے جسے وہ سرجانی ٹاؤن کے جلسے میں غیرت کے سبق یاد کروارہا تھا۔ پولیس کی وردیوں میں ملبوس پولیس اہلکار اُسے روکتے ہیں۔ گاڑی کا شیشہ نیچے کرتے ہیں ۔ پوچھتے ہیں کہ اندر کون کون بیٹھا ہے۔ مرتضیٰ جواب دیتا ہے کہ میں ہوں۔ پولیس والے کہتے ہیں ٹھیک ہے جاؤ۔ گاڑی گئیر لگاتی ہے اور گھر کے سامنے پہنچنے ہی والی ہے کہ پیچھے سے بندوقوں کے دہانے آگ اُگلنے لگتے ہیں۔ نہتا بھٹو خون میں لت پت ہوجاتا ہے۔ گھر کے اندر محبوبہ شمع جلائے رات کے کھانے پہ انتظارکررہی ہے۔ گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے شمع بجھ جاتی ہے۔ رات کا کھانا دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے۔ ۔ بھٹو کو جھکانے والے ایک دفعہ پھر ناکام ہوجاتے ہیں۔ یہ کیسا خون ہے جو اُبل اُبل کر دھرتی کی پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن دھرتی اس خون کی پیاسی رہتی ہے۔ بارُود اُسے ، اُس کے دوستوں ، اُس کے ڈرائیور اور سینے میں گنگناتی فیروز کو بھی ماردیتا ہے۔ اس کی گاڑی میں ایک تلوار بھی رکھی ہوتی ہے وہ بھی خون سے بھیگ جاتی ہے۔ یہ ایسی بدقسمت تلوار تھی جو کسی پر اُٹھے بغیر کسی جسم پر چلے بغیر سُرخ ہوجاتی ہے۔
کھانے کی میز پر رکھی موم بتی بجھ جاتی ہے۔ ایک محبوبہ اپنے محبوب کے انتظار میں بیٹھی رہتی ہے ، کھانا وہیں پڑا رہ جاتا ہے۔ پھر اُس کی لاش کو وہیں پر پڑا رہنے دیا جاتا ہے۔ وہ زخمی ہوتا ہے جاگتی آنکھوں سے اپنے گھر کے دروازے کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ اُٹھ کر گھر کی دہلیز سے اندر داخل ہوجائے لیکن قدم ساتھ نہیں دیتے۔ ڈی آئی جی واجد دُرانی کے ماتحت اُسے تڑپتا دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اُس کو زخمی پڑا رہنے دیتے ہیں کہ اسکی جان نکل جائے۔ بھٹو کا خون تارکول کی سڑک پر انجانی منزل کی طرف دوڑتا ہے سانس کی ڈوری ابھی بندھی ہوتی ہے کہ گھر سے فاطمہ بھٹو نکلتی ہے وہ چیختی ہے چلاتی ہے۔ باپ خون میں لت پت آنکھوں کے سامنے پڑا ہو تو بیٹیاں تو ویسے ہی مرجاتی ہیں۔ وہ پولیس والوں کو کہتی ہے کہ انہیں ہسپتال پہنچاؤ۔ اُسے ہسپتال پہنچایا جاتا ہے جہاں جاکر وہ دم توڑ دیتا ہے۔
فاطمہ فوری طور پر اپنی پھوپھو کو کال کرتی ہے۔ بہن وزیراعظم ہے ننگے پاؤں بھائی کے غم میں اپنے گھر سے دوڑ پڑتی ہے ۔
پھر اُسے اگلی صبح اپنے باپ کے پہلو میں دفن کردیا جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت اہم کیس کھُل جاتا ہے ۔ اٹھارہ سال تک فیروز کے دیس سے آئی یہ عربی لڑکی غنویٰ اور اُسکی بیٹی فاطمہ عدالتوں کے چکر لگاتی رہتی ہے پھر فیصلہ آتا ہے تو اُس فیصلے میں لکھا جاتا ہے کہ مرتضیٰ کو کسی نے بھی نہیں مارا!!!!
پھر چند سالوں کے بعد اُس کی بیٹی جب عقل وشعور کی منزلیں طے کرتی ہے تو وہ اپنے بابا کی خونی تلوار کو دیکھتی ہے تو پھر اُس تلوار کو وہ لفظوں کا پہناوا دیتی ہے اور اُس خون آلود تلوار سے گیت جنم لیتے ہیں
وہ ایک کتاب لکھتی ہے “Songs of Blood and Sword”
خون اور تلوار کے گیت۔
جب اس کتاب کی تقریب رونمائی کا دعوتی کارڈ بھیجا جاتا ہے تو فاطمہ اُس پر لکھتی ہے کہ
فاطمہ بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی جسے 1979میں شہید کردیا گیا!!
شاہ نواز بھٹو کی بھتیجی جس کا 1985میں قتل کردیا گیا!!
میر مرتضیٰ بھٹو کی بیٹی جسے 1996میں قتل کردیا گیا!!
بے نظیر بھٹو کی بھتیجی جسے 2007میں قتل کردیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بد قسمت ماں بیٹی اٹھارہ سال عدالتوں کے چکر لگاتی رہیں پر انصاف نہ ملا۔
ستر کلفٹن کے قریب درختوں پہ بیٹھے پرندوں نے اپنے بچوں کو پروں کے نیچے چھپا لیا اور شکر ادا کیا کہ وہ کہیں انسان نہیں بنادئیے گئے۔
آج محرم کا چاند چمکا تو بے اختیار میرمرتضیٰ بھٹو یاد آیا اور دُور سے آتے فیروز کے نغمے کی صدا بھی آئی کہ میں اپنے محبوب کے لئے ہوں اور میرا محبوب میرے لئے ہے۔۔۔۔۔
یہ وہ گیت ہے جوخون اور تلوار کے گیت ہیں۔سرجانی ٹاؤن کا جلسہ آخری جلسہ اور وہ جزباتی تقریر آخری تقریر ثابت ہوئی۔
Advertisements Share this: